imam Ahmed Raza Koun? امام ‏احمد ‏رضا ‏کون ‏

*امام احمد رضا کون؟*
[یومِ ولادتِ اعلیٰ حضرت پر نذرِ قلبی] 

از: علامہ بدر القادری مصباحی (ہالینڈ)
 
 {دین کے دُشمن سرگرم ہوئے... مغل اقتدار کا خاتمہ ہوا... انگریز قابض ہوئے... تاج و تخت جاتے رہے... پھر فکری زوال شروع ہوا... گستاخِ رسول گروہ تیار کیے گئے... قادیانیت و وہابیت کو انگریز نے پَروان چڑھایا... امام احمد رضا قادری بریلوی نے دین کی حفاظت کے لیے عظیم خدمات انجام دیں... تاریخِ ہند کی یہ داستان نظمِ معریٰ میں علامہ بدرالقادری مصباحی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں... جس میں امام احمد رضا قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے کارِ تجدید اور تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خدمات کی روشنی مشاہدہ ہوتی ہے... شاہراہِ عزم و یقیں کشادہ نظر آتی ہے...جہدِ مسلسل کی صدائے بازگشت قصرِ رضا سے صاف سُنائی دیتی ہے...}
    ___

اپنی تاریخ سے چلمن کو ہٹاتا ہوں میں 
ماضیِ ہند کے اک دَور کا نظّارا کرو
لرزے میں تختِ مغلیہ ہے اِدھر
جال عیّاری کاپھیلائے اُدھر اہلِ فرنگ
دام ہمرنگ زمیں
کتنے صیّادہیں پوشیدہ مکیں گاہوں میں 
حیف! خم ہوتا ہے اقدارِ مغلیہ کا علَم
خون میں ڈوبے گا اب قلعۂ سُرخ
مسجدِ شاہ جہاں روئے گی خوں
جلیانوالہ سے بھی پُر ہول مناظر کتنے 
یہ زمیں دیکھے گی
   ☆☆☆
رو چکی ارضِ سرنگا پٹنم
اپنے بے باک جواں مردوں کو 
مرقدِ حیدر وٹیپو اب تک
دے نہ پائے مِری ملت کو نشانِ منزل 
پھر نہ میسور نے پیدا وہ جواں مرد کیا
جس کی تکبیر سے افرنگ کی نیندیں ہوں اُچاٹ 
حریت کے لیے مردانہ جو ہو جائے شہید
اس کے اپنوں ہی نے سازش کے بُنے ایسے جال 
جس سے تاریخ کا اِک موڑ بھیانک اُبھرا 
چند افراد کی غدّاری و عیّاری نے 
چھین لی ہم سے ردائے عظمت 
چھین لی سطوت و جاہ و حشمت 
اَلْاَسَفَ ! چھین لی ہم سے غیرت 
ایسی ہی اور کئی خوں بار، بھیانک بدلی
سرپہ یوں آئی کہ آتش برسی 
جل گئی کشتِ تمنّا ساری
کلکتہ کا وہ سراج الدّولہ 
زورِ افرنگ مٹانے جو اُٹھا 
اس کے اپنوں ہی نے غدّاری کی 
زورِ افرنگ وہ کیا توڑتا خود ٹوٹ گیا 
مادرِ ہند کو ہندیوں نے خود بیچ دیا 
ایک قزّاق کے ہاتھ
   ☆☆☆
جب پنپتا ہے نیّتوں میں فتور
کشتیِ قوم ڈگمگاتی ہے
ناؤ ہی میں چھپا ہوگر دُشمن 
ناؤ ساحل پہ ڈوب جاتی ہے 
☆☆☆
وقت بھی امتحان لیتا ہے 
آزمائش کی ساعت آتی ہے 
جو وفادارِ عہد فطرت ہو 
نُصرت اس کو گلے لگاتی ہے 
☆☆☆
چشم گردوں نے بھی وہ دن دیکھے 
جب کہ دہلی کا تاجدار مغل 
دستِ افرنگ میں مقیّد تھا
اور مغلیہ علَم اُتارا گیا
لال قلعہ کے بُرجِ اعلیٰ سے 
کئی صدیوں کی مٹ گئی تاریخ
فضلِ حق انڈماں میں قید ہوئے 
دامِ افرنگیاں میں صید ہوئے 
ملکہ حضرت محل جری خاتون 
دُشمنوں کے لیے جو تھی فولاد 
مگر اُس کے بھی شل ہوئے بازو
دُشمنوں نے حصار توڑ دیا 
حیف! پنجابی ہندیوں نے خود
ربط افرنگیوں سے جوڑ لیا
☆☆☆
اہلِ غیرت نے لے کے سیفِ جہاد
شورِ تکبیر بھی بلند کیا 
بِک چکے تھے مگر بہت سے لوگ 
نام تھے جن کے مومنوں کی طرح 
انہی ملّت کے باغیوں کے سبب
ملک افرنگیوں کے ہاتھ گیا 
اور پھر ظلم کی اُٹھی آندھی 
سر لگے ہر طرف قلم ہونے 
سج گئے ہر جگہ پہ دار و رسن 
دہلی اشراف کا بنی مقتل 
کوئی جا امن کی رہی نہ کہیں
ظالم انگریزوں نے مچائی لُوٹ 
اہلِ ایماں پہ کوہِ غم ٹوٹے 
لٹ گئے، مٹ گئے، تباہ ہوئے 
ماؤں بہنوں نے شرم و غیرت سے 
جان دے دی، مگر بچائی حیاء
پَٹ گئے لاشوں سے کنویں کتنے 
اس طرح خون میں رنگی دہلی 
خونِ ناحق، وہ خوں ہمارا تھا
اہلِ دیں صاحبِ عقیدت کا 
باوفا مردِ شرم و غیرت کا 
خون تھا سُرخ وگرم و تازہ خون 
عزم کا، عدل کا، شجاعت کا 
علم کا، فضل کا، مروّت کا 
صوفیِ باصفاکی نسبت کا 
حافظانِ کتاب و سُنّت کا 
ہاں وہی خوں جو پاسِ حق کے لیے 
کربلا کی زمیں سے بہتا ہوا
آج بھی ہے رواں دواں جولان 
☆☆☆
دُشمن؛ اسلام کا، اِس رمز سے بے بہرہ نہ تھا
کہ مسلمان ہے وہ قومِ غیور
صلح باطل سے جو کر سکتی نہیں 
اس لیے مکر سے شیطاں نے مسلمانوں میں 
نئی تفریق کی تدبیر رچی 
فرقے سب اہلِ حدیث اور وہابی سلفی 
قادیانی و بہائی نیچری وندوی
اس کے پر چم تلے پروان چڑھے 
عہدِ اسلامی میں روباہ جو تھے، شیر بنے
بدعتی ٹھہرے جو اسلاف کے قدموں پہ رہے 
نئے فرقے نئی تہذیب کا آغاز ہوا 
نئی توحید نیا علمِ کلام آنکلا
قاطعینِ رگِ توحید موحّد ٹھہرے 
پٹّھو انگریز بہادر کے ہوئے غازی شہید
ریزہ خوارانِ فرنگی ہوئے شمس العلماء
اہلِ اسلام کے قاتل کو ملا غازی خطاب 
باغیِ دینِ محمد کا لقب ٹھہرا شہید
طمع و حرص نے یوں غیرتِ ایماں چھینی 
علم رُخصت ہوا، مفقود ہوئی حق بینی 
لوگ انگریز کی خوشنودی کے دیوانے ہوئے 
مئے توحید سے خالی سبھی پیمانے ہوئے 
خانقاہوں میں دمِ ہوٗ کی جگہ عالمِ ہوٗ
کون ملّت کا کرے چاک گریبان رفوٗ
☆☆☆
ہند خواجہ کی زمیں مدفنِ اہلِ عرفاں 
مرکزِ اہلِ صفا، مشہدِ اہلِ ایماں 
چشتی وغازی و سرہندی وخسرو کا وطن
قطب و ابدال کا، اللہ کے ولیوں کا چمن 
صدیوں جس خاک پہ اسلامی علَم لہرایا 
فیض، زمزم سے جہاں گنگ و جمن نے پایا
نت نئے فتنے مسلمانوں میں پھیلائے گئے 
اور تکفیر کے طوفان اُٹھے 
کذبِ سُبحان کے امکان کی بحثیں اُٹھیں 
شان میں ختمِ رسالت کی کُھلی گستاخی 
ہائے! کی جانے لگی 
طعن و تشنیع کے تیر و نشتر
چار یاروں پہ! صحابہ پہ چلے 
منکرِ ختمِ نبوت بن کر 
کوئی چنڈال اُٹھا 
قادیانی مُتَنَبِّی بن کر 
کوئی دجّال اُبھرا
ترکِ تقلید کے عنواں نکلے 
کانپ اُٹھی ساری زمیں اور فلک تھرّایا 
اُمتِ ختم پیمبر میں وہ فتنہ آیا 
☆☆☆
باغیانِ دیں کے ہاتھوں اَلْاَسَف!
پائمالی شرع کی ہونے لگی 
اتحاد و قومیت کے نام پر
مشرکوں سے سازباز 
جبہ و دستار کی لے لے کے آڑ
پیکرِ اسلام پر حملے مدام 
جابجااور کُو بہ کُو
دُشمنانِ مصطفیٰ علماءِ سوء
پُھولنے پھلنے لگے 
دُشمنِ اکبر نے سب کو حق سے غافل کردیا 
چار دن کی زندگی پر سب کو مائل کردیا 
عظمتِ ذاتِ رسول 
عزّوشانِ مصطفیٰ 
اور تکریمِ نبی 
تھی متاعِ زندگی جو ملّتِ مرحوم کی 
الاماں وہ شمع گُل کرنے چلے 
جس کی لو سے شمس کا دیپک جلے 
جس کے دَم سے ہے بہاروں میں سُرور 
روشنی آنکھوں میں، ذہنوں میں شعور 
المددیا مصطفیٰ خیرالوریٰ 
مضطرب رُوحوں کا نعرہ گونج اُٹھا
☆☆☆
نسلِ اورنگ زیب عالمگیر گو رخصت ہوئی 
زندہ باقی رہ گئی تھی کچھ سپہ اس فوج کی 
خواجۂ اجمیر کے مرقد سے اُٹھی اِک کرن 
سرورِ بغداد کا رُوحانی آئینہ لیے 
دہلی و اجمیر و مارہرہ سے لے کر روشنی
فضلِ رحمٰں، فضلِ حق کے فیض سے
اِک مجاہد جاگ اٹھا
کہیے  جسے *’’احمد رضا‘‘*
ساحرانِ دہر کا سارا فسوں 
جس نے توڑ ا اپنی ضربِ علم سے 
فتنہ سَامانوں کے سارے مکر و کید
مثلِ پرکاہ اس کی پُھونکوں سے اُڑے 
جو بھی تھے بازیگرانِ دینِ نو
موت اُن کے سر پہ منڈلانے لگی
وہ مجاہد، وہ سپہ سالار، وہ مردِجری 
بزمِ دوشیں کی وہ شمعِ آخری
کفر کی ہر ایک چال 
روبرو اُس کے عیاں 
جو اُڑائے فتنہ و غوغا و شر کی دھجیاں 
☆☆☆
وہ نڈر احقاقِ حق میں، پیشِ باطل وہ قوی 
دُشمنانِ دیں کے حق میں ذوالفقارِ حیدری 
جرأت اُس کے دل میں تھی 
غیرت اُس کی خوٗ میں تھی 
عشق و مستی جاں سپاری، مردمی 
حاملِ صدق و صفا کے پاک آب و گِل میں تھی
وہ بِلک جاتا تھا جب وہ دیکھتا 
اہلِ دیں کی بے بسی 
لوگ لکھ کر بھیجتے تھے اس کو خط میں گالیاں 
زندگی بھر وہ مگر ان کو دُعا دیتا رہا 
اس کے روز و شب دفاعِ حق میں ہوتے تھے بسر
عظمتِ سرکار ہوتی ہر گھڑی پیشِ نظر 
بادۂ عشقِ نبی کا وہ عجب میخوار تھا
حاذقِ اُمّت، شہِ کونین کا بیمار تھا 
مستعد ہر گام وہ قربان ہونے کے لیے 
لیٹتا نقشِ محمد بن کے سونے کے لیے 
☆☆☆
عمر بھر جو بیقرارِ مصطفیٰ بن کر جیا
عمر بھر جو پرچمِ اسلام لہراتا رہا 
خونِ دل سے جس نے بزمِ دیں کو بخشی روشنی
ہند میں چاروں طرف ہے اُس کے رُخ کی چاندنی 
روشنی ہی روشنی 
تازگی ہی تازگی 
عشق کی تابندگی 
زندگی ہی زندگی 
خوشبوئے ایماں لیے آئی نسیمِ آگہی 
عشقِ سَرور کی شمیمِ جاں فزا
یوں چلی، مُرجھائے غنچے کھل گئے 
قافلے صحراؤں میں بھٹکے ہوئے 
گنبدِ خضریٰ کے رُخ پر چل پڑے 
☆☆☆
اے خدائے پاک، رب العالمیں 
خالقِ افلاک و پہنائے زمیں 
اہلِ مشرق کی ہر اک رُوحِ سعید 
زیر بارِ منّتِ درویش ہے
ہے رواں جب تک جہاں میں کاروانِ زندگی 
پُھول بن بن کر ہنسے گی اس چمن میں ہر کلی 
مسجدوں میں ہیں نمازی جب تک، اور ان مدرسوں میں قیل و قال 
خانقاہوں میں ہے جب تک ذکر و فکر، وجہِ وصال 
تُربتِ *احمد رضا* پر یا الہٰی برسیں پھول 
حشرتک ہوتیری رحمت کا نزول 
☆☆☆
عظمتِ ختم الرسل پائندہ باد 
یا الٰہی ! اہلِ سُنّت زندہ باد
☆☆☆
ترسیل: نوری مشن مالیگاؤں

_10 شوال المکرم یومِ ولادتِ اعلیٰ حضرت مبارک_

بنا کسی کمی بیشی کے اس پوسٹ کو شئیر کرنے کی استدعا ھے-
***
٢ جون ٢٠٢٠ء 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے